Al Madad Khwaja e Deen Hind Ke Maah E Mubden
بسم الله الرحمن الرحيم
المدد خواجہ دیں
ہند کے ماہ مبیں
خوشبو سے معطر ہے گلدان معین الدین
بھارت کی جبیں پر ہے احسان معین الدیں
ہو کیسے بیاں مجھ سے اب شان معین الدیں
ہر ایک زباں پر ہے عنوان معین الدیں
المدد خواجہ دیں
ہند کے ماہ مبیں
اک دشت کو خواجہ نے گلزار بنایا ہے
اک وادی ظلمت کو ضوبار بنایا ہے
اللہ نے خواجہ کو مختار بنایا ہے
کل ہند کے ولیوں کا سردار بنایا ہے
المدد خواجہ دیں
بند کے ماہ مبیں
سورج کو بھی شرمادے ذرہ مرے خواجہ کا
دریا کو ڈبو دے اک قطرہ مرے خواجہ کا
ہے ہند کی ہر شے پر قبضہ مرے خواجہ کا
خشکی مرے خواجہ کی دریا مرے خواجہ کا (فراط)
المدد خواجہ دیں
ہند کے ماہ مبیں
اب قلب و نظر سب کچھ جاگیر تمہاری ہے
ہر دل کی سطح پر اب تصویر تمہاری ہے
ہو کفر کی گردن خم کیوں کر نہ ترے آگے
کردار معظم جب شمشیر تمہاری ہے
المدد خواجہ دیں
ہند کے ماہ مبیں
...
المدد خواجہ دیں
ہند کے ماہ مبیں
گل بن کے مہک اٹھا جو تجھ سے جُڑا خواجہ
وہ غرق ہوا سمجھو جو تجھ سے پھرا خواجہ
کیونکر نہ ہوں گرویدہ ہم تیری بزرگی پر
نازاں ہے ترے اوپر جب پیر ترا خواجہ
المدد خواجہ دیں
بند کے ماہ مبیں
سرکار ﷺ کے جلووں کے فیضان ہو تم خواجہ
اس چشتیہ گلشن میں ذیشان ہو تم خواجہ
بھارت کی ولایت کے سلطان ہو تم خواجہ
ہر درد کے ماروں کے درمان ہو تم خواجہ
المدد خواجہ دیں
ہند کے ماہ مبیں
اسلام کی شوکت کو خواجہ نے بڑھا ڈالا
لاکھوں کے دلوں میں وہ اک نور جلا ڈالا
جے پال کو بھی مسلم خواجہ نے بنا ڈالا
”چوہان“ کی شاہی کو مٹی میں ملا ڈالا
المدد خواجہ دیں
بند کے ماہ مبیں
اللہ نے بخشا ہے عالم میں تجھے اعجاز
مرشد کو ترے تجھ پر اے خواجہ بڑا ہے ناز
ہے تیری سخاوت کا شاہوں سے جدا انداز
جھولی کو مری بھر دو اے میرے غریب نواز
المدد خواجہ دیں
بند کے ماہ مبیں
...
المدد خواجہ دیں
بند کے ماہ مبیں
شبیر نے کربل میں اس دیں کو بچایا ہے
اس دین کو خواجہ نے پھر ہند میں لایا ہے
فتنوں سے رضا نے پھر جب دیں یہ بچایا ہے
تب جاکے کہیں ہم نے اس دین کو پایا ہے
المدد خواجہ دیں
ہند کے ماہ مبیں
کشمیر" سے "تامل" تک اس کا ہی علاقہ ہے
بھارت کا ہر اک ذرہ اس کا ہی اثاثہ ہے
کرسی پہ کوئی بیٹھے کیا اس سے غرض ہم کو
تا حشر مرا خواجہ اس ہند کا راجہ نے
المدد خواجہ دیں
ہند کے ماہ مبیں
رحمت کی فضاؤں میں باخبر چلے جاو
دنیا کی محافل سے رُخ پھیر چلے جاؤ
ملنا ہے اگر تم کو بھارت کے شہنشاہ سے
لو اذن بریلی سے اجمیر چلے جاؤ
المدد خواجہ دیں
ہند کے ماہ مبیں
گردش سے پریشان دل حالات کا مارا ہے
غم اس کو ستاۓ یہ کب تجھ کو گوارا ہے
طغیانی میں کشتی ہے اور دور کنارا ہے
اے ڈوبتوں کے والی اب تیرا سہارا ہے
المدد خواجہ دیں
ہند کے ماہ مبیں
...
المدد خواجہ دیں
ہند کے ماہِ مبیں
لاکھوں کو مرے خواجہ نے کلمہ پڑھایا ہے
بھارت کے مقدر کو خواجہ نے جگایا ہے
کشکول میں خواجہ نے دریا کو سمایا ہے
اللہ کی قدرت کا کیا جلوہ دکھایا ہے
المدد خواجہ دیں
بند کے ماہ مبیں
ظلمت کی نفس کو پھر یا رب تو دھواں کردے
اجمیر کے گلشن سے اب دور خزاں کردے
فقین مجاور کو یا راہ ہدایت دے
یا ان کو زمانے سے بے نام و نشان کردے
المدد خواجہ دیں
بند کے ماہ مبیں
ہے گلشن ہستی میں نکہت مرے خواجہ کی
صد شکر کہ ہے دل میں الفت مرے خواجہ کی
کونین میں گر تجھ کو نصرت کی تمنا ہے
ایوب شکستہ کر مدحت مرے خواجہ کی
المدد خواجہ دیں
ہند کے ماہ مبیں
ایوب نہ بھولے گا خواجہ ترے احسان کو
سیراب کیا تو نے امت کے گلستاں کو
پستی سے بلندی دے پھر قوم مسلماں کو
تسکین اتم دے دے ہر قلب پریشاں کو
المدد خواجہ دیں
ہند کے ماہ مبیں
از محمد ایوب رضا امجدی کولکاتہ غفرلہ
[Blog :: Mohammed Usman Gani Qureshi]
(Social Media :- WhatsApp, Instagram)
Comments
Post a Comment