Tazmeen Waah Kya Martaba Aye Gaus E Baala Tera
تضمین کلامِ اعــلٰی حــضـرت ٬ عظیم البرکت ٬ مجدد دین و ملّت ٬ پروانۂ شمعِ رسالت ٬ میرے آقائے نعمت ٬ پیشوائے اہلِ سنّت ٬ عاشقِ ماہِ نبوت ٬ عالمِ شریعت ٬ رہبرِ طریقت ٬ والیٔ نعمت ٬ حامیٔ سنّت ٬ ماہیٔ بدعت ٫ قاطعِ نجدیت ٬ حسان الہند ٬ امام الکلام کلام الامام ٬ الشاہ امــام احـمـد رضــا خــان قــادری بــرکاتـی رضی اللّٰه تعالٰی عنہ
مرحبا رنگ ہے کیا سب سے نرالا تیرا
جھوم اٹھا جس نے پیا وصل کا پیالا تیرا
اولیا ڈھونڈتے پھرتے ہیں اجالا تیرا
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
جسے چاہے تیری سنتا ہے سناتا ہے تجھے
حسبِ تدبیر سلاتا ہے جگاتا ہے تجھے
اپنی مرضی سے اٹھاتا ہے بٹھاتا ہے تجھے
قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھے
پیارا الله تِرا چاہنے والا تیرا
بخدا مملکتِ فقر کا تو ناظم ہے
تاجداروں پہ سدا دھاک تیری قائم ہے
کیوں نہ راحم ہو کہ اللہ تیرا راحم ہے
کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابنِ ابی القاسم ہے
کیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا
میں کہاں اور کہاں تیرا مقام قربت
میری اوقات ہی کیا تھی کہ یہ پاتا رفعت
تیری چوکھٹ نے عطا کی یہ مسلسل عزت
تجھ سے در در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا
ہم در غیر کو خاطر میں بھلا کیا لاتے
عمر گزری تیری دھلیز پہ ٹکڑے کھاتے
کوئی کیوں مارے تیرے ہوتے تیرا کھاتے
اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹا تیرا
علم میں فرد میں کہ وہ زہد میں یکتا ہوں گے
اہلِ سجدہ وہ تسبیح و مصلی ہوں گے
میں نے مانا کہ فضائل میں وہ کیا کیا ہوں گے
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مِرے آقا تیرا
معترض کے لیے ہر چند یہ ہے طرفہ مطاف
ہے مگر اہلِ بصیرت کو یہ منظر شفاف
آنکھ والوں نے یہ دیکھا ہے بچشمِ انصاف
سارے اقطاب جہاں کرتے ہیں کعبے کا طواف
کعبہ کرتا ہے طوافِ درِ والا تیرا
حسنی پھول تیرا روئے دل کا آرا گلزار
ہو کے جلووں میں تیرے محوِ نظارہ گلزار
چوم کر لہجۂ خوشبو میں پکارا گلزار
تو ہے نوشاہ براتی ہے یہ سارا گلزار
لائی ہے فصل سمن گوندھ کے سہرا تیرا
ان پہ خالق نے کیا ہے یہ خصوصی انعام
کب وہ مایوس ہوئے اُن کا رکا کون سا کام
کون سے ملک میں حاصل نہ ہوا ان کو مقام
راج کس شہر میں کرتے نہیں تیرے خدّام
باج کِس نہر سے لیتا نہیں دریا تیرا
تو جو مائل بہ کرم ہو تو نہیں لگتی دیر
پھر ڈراتا نہیں انسان کو تقدیر کا پھیر
غیر محدود ہے شاہا تیری برسات کا گھیر
مزرعِ چشت و بخارا و عراق و اجمیر
کون سی کِشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا
کم نظر کاش کسی طور تجھے پہچا نیں
حسد و بغض کو چھوڑیں تجھے دل سے مانیں
تجھے بخشیں تیرے الله نے کیا کیا شانیں
سُکر کے جوش میں جو ہیں وہ تجھے کیا جانیں
خِضر کے ہوش سے پوچھے کوئی رتبہ تیرا
وسوسہ ذہن میں ڈالے جو کسی کے خناس
نیک و بد کا اسے رہتا نہیں ہر گز احساس
کر گزرتا ہے جہالت میں وہ کیا کیا بکو اس
آدمی اپنے ہی اَحوال پہ کرتا ہے قیاس
نشے والوں نے بھلا سُکر نکالا تیرا
ضحو و تمکیں نے عجب رنگ جمایا تجھ پر
شکر و مستی کا کوئی لمحہ نہ آیا تجھ پر
سائباں فضل کا خالق نے لگایا تجھ پر
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تِرا ذکر ہے اُونچا تیرا
تابہ کے ذہن کو بہکائیں گے اعدا تیرے
اپنے انجام سے گھبرائیں گے اعدا تیرے
مرگِ ذلت سے نہ بچ پائیں گے اعدا تیرے
مٹ گئے مٹتے ہیں مِٹ جائیں گے اَعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
تیرے بدخواہ کی جس نہج پہ بھی عمر کٹے
نہیں ہٹتا وہ اگر اپنی ڈگر سے نہ ہٹے
دشمنی پر تیری ہر چند مخالف ڈنے
تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے الله تعالیٰ تیرا
خوانِ توحید پہ ہے خلق خدا ضیف تیری
قدر کی غیر پرستوں نے نہ صدحیف تیری
بات چلتی ہے بہر حال و بہر کیف تیری
حکم نافذ ہے تِرا خامہ تِرا سیف تِری
دم میں جو چاہے کرے دور ہے شاہا تیرا
آج گھرے ہوئے اعمال کی شامت ہے مگر
سامنے آگ بھی خطرے کی علامت ہے مگر
پرلش بھی بدستور سلامت ہے مگر
دھوپ محشر کی وہ جاں سوز قیامت ہے مگر
مطمئن ہوں کہ مِرے سر پہ ہے پلّا تیرا
اگرچہ آمادہ بہ برباد شدن خرمنِ نے تست
دلِ بدخواہ کہ آسودہ زِ آزردنِ تست
تنگ ہر چند دلے چند نصیر از فنِ تست
اے رؔضا چیست غم ار جملہ جہاں دشمنِ تست
کردہ ام مامنِ خود قبلۂ حاجاتے را
طالب دعا محمد رضا قادری
[Blog :: Mohammed Usman Gani Qureshi]
Comments
Post a Comment