KAlam E Ustad e Zaman Allama Hasan Raza Khan Sahab

   
نجدیا سخت ہی گندی ہے طبیعت تیری
کفر کیا شرک کا فضلہ ہے نجاست تیری

خاک منہ میں ترے کہتا ہے کسے خاک کا ڈھیر
مِٹ گیا دین ملی خاک میں عزت تیری

تیرے نزدیک ہوا کذب الٰہی ممکن
تجھ پہ شیطان کی پھٹکار یہ ہمت تیری

بلکہ کذّاب کیا تو نے تو اِقرار وقوع
اُف رے ناپاک یہاں تک ہے خباثت تیری

علم شیطاں کا ہوا علمِ نبی سے زائد
پڑھوں لاحول نہ کیوں دیکھ کے صورت تیری

بزمِ میلاد ہو ’کانا‘ کے جنم سے بدتر
ارے اندھے ارے مردود یہ جرأت تیری

علمِ غیبی میں مجانین و بہائم کا شمول
کفر آمیز جنوں زا ہے جہالت تیری

یادِ خر سے ہو نمازوں میں خیال اُن کا بُرا
اُف جہنم کے گدھے اُف یہ خرافت تیری

اُن کی تعظیم کرے گا نہ اگر وقتِ نماز
ماری جائے گی ترے منہ پہ عبادت تیری

ہے کبھی بوم کی حلت تو کبھی زاغ حلال
جیفہ خواری کی کہیں جاتی ہے عادت تیری

ہنس کی چال تو کیا آتی ، گئی اپنی بھی
اِجتہادوں ہی سے ظاہر ہے حماقت تیری

کھلے لفظوں میں کہے قاضی شوکاں مدد دے
یا علی سُن کے بگڑ جائے طبیعت تیری

تیری اٹکے تو وکیلوں سے کرے اِستمداد
اور طبیبوں سے مدد خواہ ہو علت تیری

ہم جو اﷲ کے پیاروں سے اِعانت چاہیں
شرک کا چرک اُگلنے لگے ملت تیری

عبدِ وہاب کا بیٹا ہوا شیخِ نجدی
اُس کی تقلید سے ثابت ہے ضلالت تیری

اُسی مشرک کی ہے تصنیف ’کتاب التوحید‘
جس کے ہر فقرہ پہ ہے مہرِ صداقت تیری

ترجمہ اس کا ہوا ’تفویۃ الایماں‘ نام
جس سے بے نور ہوئی چشمِ بصیرت تیری

واقفِ غیب کا اِرشاد سناؤں جس نے
کھول دی تجھ سے بہت پہلے حقیقت تیری

زلزلے نجد میں پیدا ہوں فتن برپا ہوں
یعنی ظاہر ہو زمانے میں شرارت تیری

ہو اِسی خاک سے شیطان کی سنگت پیدا
دیکھ لے آج ہے موجود جماعت تیری

سر مُنڈے ہونگے تو پاجامے گھٹنے ہونگے
سر سے پا تک یہی پوری ہے شباہت تیری

اِدعا ہو گا حدیثوں پہ عمل کرنے کا
نام رکھتی ہے یہی اپنا جماعت تیری

اُن کے اعمال پہ رشک آئے مسلمانوں کو
اس سے تو شاد ہوئی ہو گی طبیعت تیری

لیکن اُترے گا نہ قرآن گلوں سے نیچے
ابھی گھبرا نہیں باقی ہے حکایت تیری

نکلیں گے دین سے یوں جیسے نشانہ سے تیر
آج اس تیر کی نخچیر ہے سنگت تیری

اپنی حالت کو حدیثوں کے مطابق کر لے
آپ کھل جائے گی پھر تجھ پہ خباثت تیری

چھوڑ کر ذکر تیرا اب ہے خطاب اپنوں سے
کہ ہے مبغوض مجھے دل سے حکایت تیری

مرے پیارے مرے اپنے مرے سُنّی بھائی
آج کرنی ہے مجھے تجھ سے شکایت تیری

تجھ سے جو کہتا ہوں تو دل سے سُن انصاف بھی کر
کرے اﷲ کی توفیق حمایت تیری

گر ترے باپ کو گالی دے کوئی بے تہذیب
غصہ آئے ابھی کچھ اور ہو حالت تیری

گالیاں دیں اُنھیں شیطانِ لعیں کے پیرو
جن کے صدقے میں ہے ہر دولت و نعمت تیری

جو تجھے پیار کریں جو تجھے اپنا فرمائیں
جن کے دل کو کرے بے چین اَذیت تیری

جو ترے واسطے تکلیفیں اُٹھائیں کیا کیا
اپنے آرام سے پیاری جنہیں راحت تیری

جاگ کر راتیں عبادت میں جنھوں نے کاٹیں
کس لیے ، اِس لیے کٹ جائے مصیبت تیری

حشر کا دن نہیں جس روز کسی کا کوئی
اس قیامت میں جو فرمائیں شفاعت تیری

اُن کے دشمن سے تجھے ربط رہے میل رہے
شرم اﷲ سے کر کیا ہوئی غیرت تیری

تو نے کیا باپ کو سمجھا ہے زیادہ اُن سے
جوش میں آئی جو اِس درجہ حرارت تیری

اُن کے دشمن کو اگر تو نے نہ سمجھا دشمن
وہ قیامت میں کریں گے نہ رفاقت تیری

اُن کے دشمن کا جو دشمن نہیں سچ کہتا ہوں
دعویٰ بے اصل ہے جھوٹی ہے محبت تیری

بلکہ ایمان کی پوچھے تو ہے ایمان یہی
  • اُن سے عشق اُن کے عدو سے ہو عداوت تیری


اہلِ سنت کا عمل تیری غزل پر ہو حسنؔ
جب میں جانوں کہ ٹھکانے لگی محنت تیری

ذوقِ نعت

   

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Ziya e Mustafa Ban Kar Ziya Ul Mustafa Aaye

Mat Pucho Bareilly Meñ Humne