اَلِْاسْتِمْرَاد عَلیٰ اجْیالِ الِْارْتِداد

 کلام مکمل لکھا ہوا ہے جو آپ کو حدائقِ یخشش میں مکمل نہیں ملے گا ٫ اس کلام کے اندر تمام باطل فرقوں کا سیدی اعلیٰ حضرت نے رد فرمایا ہے


(For English :: Click Here)

سچی بات سکھاتے یہ ہیں 

سیدھی راہ دکھاتے یہ ہیں


ڈوبی ناویں تراتے یہ ہیں 

ہلتی نیویں جماتے یہ ہیں


ٹوٹی آسیں بندھاتے یہ ہیں 

چھوٹی نبضیں چلاتے یہ ہیں


جلتی جانیں بجھاتے یہ ہیں 

روتی آنکھیں ہنساتے یہ ہیں


قصرِ دَنیٰ تک کس کی رَسائی

جاتے یہ ہیں آتے یہ ہیں


اس کے نائب ان کے صاحب

حق سے خَلْق ملاتے یہ ہیں


شافع نافع رافع دافع

کیا کیا رحمت لاتے یہ ہیں


شافع اُمت نافع خَلْقَت

رافع رتبے بڑھاتے یہ ہیں


دافع یعنی حافظ و حامی

دَفع بلا فرماتے یہ ہیں


فیض جلیل خلیل سے پوچھو

آگ میں باغ کھلاتے یہ ہیں


ان کے نام کے صدقے جس سے

جیتے ہم ہیں جلاتے یہ ہیں


اس کی بخشش ان کا صدقہ

دیتا وہ ہے دِلاتے یہ ہیں


ان کا حکم جہاں میں نافذ

قبضہ کل پہ رکھاتے یہ ہیں


قادِرِ کُل کے نائب اَکبر

کن کا رنگ دِکھاتے یہ ہیں


ان کے ہاتھ میں ہر کنجی ہے

مالک کُل کہلاتے یہ ہیں


اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر

ساری کثرت پاتے یہ ہیں


رب ہے مُعْطِی یہ ہیں قاسم

رِزْق اُس کا ہے کھلاتے یہ ہیں


ماتم گھر میں ایک نظر میں 

شادی شادی رَچاتے یہ ہیں


اپنی بنی ہم آپ بگاڑیں 

کون بنائے بناتے یہ ہیں


لاکھوں بلائیں کروڑوں دشمن

کون بچائے بچاتے یہ ہیں


بندے کرتے ہیں کام غضب کے

مژدہ رضا کا سناتے یہ ہیں


بندے کرتے ہیں کام غضب کے

مژدہ رضا کا سناتے یہ ہیں


مرقد میں بندوں کو تھپک کر

میٹھی نیند سلاتے یہ ہیں


باپ جہاں بیٹے سے بھاگے

لطف وہاں فرماتے یہ ہیں


ماں جب اکلوتے کو چھوڑے

آ آ کہہ کے بلاتے یہ ہیں


خود سجدے میں گر کر اپنی

گرتی اُمت اُٹھاتے یہ ہیں


ننگوں بے ننگوں کا پردہ

دامن ڈھک کے چھپاتے یہ ہیں


اپنے بھرم سے ہم ہلکوں کا

پلہ بھاری بناتے یہ ہیں


ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا

پیتے ہم ہیں پلاتے یہ ہیں


سَلِّم سَلِّم کی ڈَھارس سے

پل پر ہم کو چلاتے یہ ہیں


جس کو کوئی نہ کھلوا سکتا 

وہ زَنجیر ہلاتے یہ ہیں


جن کے چھپر تک نہیں اون کے

موتی محل سجواتے یہ ہیں


ٹوپی جن کے نہ جوتی ان کو

تاج و براق دِلاتے یہ ہیں


کہدو رضا ؔسے خوش ہو خوش رہ

مژدہ رضا کاسناتے یہ ہیں


مولیٰ دین مٹاتے یہ ہیں 

کُفر اسلام میں لاتے یہ ہیں 


تیری شان گھٹاتے یہ ہیں 

رب کو غیب لگاتے یہ ہیں 


رب سے الجھیں نبی سے الجھیں 

کس ابلیس کے کاتے یہ ہیں


بلکہ وہ کُفر میں اُن کا گرگا 

پھر مسلم کہلاتے یہ ہیں 


ابن عقبہ سے مسلم ہیں 

حاشا اس کو لجاتے یہ ہیں 


اس کے ظلموں کی حد تھی حرم پر 

 شاہ حرم تک جاتے یہ ہیں


کفر کے بچے کُفر کے باوا  

کفر کے رشتے ناتے یہ ہیں 


سب سے مضر تر ہیں یہ وہابی 

سنی بن کے رجھاتے یہ ہیں 


سُنّی و حنفی و چشتی 

بن بن کر بہکاتے یہ ہیں


جتنے ضلال ہوئے ہیں اب تک  

ان بہیوں کے کھاتے یہ ہیں 


جو چھپر ابلیس نے چھپائے 

سب کے بندھن بتاتے یہ ہیں 


حق سے جاھل شہ سے ذاہل 

کیسی مد کے ماتے یہ ہیں 


اپنی چلتی نور الہی 

جلتے مونھ سے بجھاتے یہ ہیں  


 پیارے دفع کر اعدا کیوں کر  

تیرے ہوتے ساتے یہ ہیں


شه کو رُسل کو مالک کو جو مانے 

اس کو خدا سے چھڑاتے  یہ ہے 


چھاچھ بنا کر پھینکی نبوت 

گھی توحید کا تاتے یہ ہیں  


پھر اس کلمہ کفر کی تہمت  

رب و رُسل پہ اٹھاتے یہ ہیں 


شہ کو رُسل کو اہل خدا کو 

جو ہٹرے چمار سناتے یہ ہیں 


حق سے چھوٹا ان سے اعظم 

بیچ میں اور مناتے یہ ہیں 


وہ سب رکھے چمار سے بدتر 

ٹھاکر کس کو مناتے یہ ہیں 


لا واللہ وہ شان خدا ہے

ذرہ سے جس کو گراتے یہ ہیں 


رب کا مقابل سمجھے رسل کو 

اپنا شرک بھلاتے یہ ہیں 


ان کی عزت حق سے جدا ہے 

دونوں کی تول کراتے یہ ہیں 


ان کا نام دھرا ناکارے  

کفر کے کام تو آتے یہ ہیں 


ان کے مونھ میں خاک ہو کس کو  

مٹی میں مر کے ملاتے یہ  ہیں 


پھر اس کو کُفر کی تہمت شہ پر 

رکھ کر خاک اڑاتے یہ ہیں 


جیسے پدھان اور چود هری ایسے 

شہ کی سیادت گاتے یہ ہیں 


چھوٹے بڑے بھائی کا تفاوت 

اپنے میں شہ میں بناتے یہ ہیں 


صرف بھائی کے برابر 

شہ کا وقار مناتے یہ ہیں 


چھوٹے نانا حسین و حسن کے 

پیش خود کہلاتے یہ ہیں 


حکم ادب میں چچا زہرا کے 

قَاتَلَھُمْ  بنے جاتے یہ ہیں 


وہ جن پر ماں باپ تصدق 

بھائی ان کو بناتے یہ ہیں 


طالبی عباسی تو نہیں کیا 

زیر ابو لہب آتے یہ ہیں 


شہ کی ثنا مدح باہم سے 

کم ہو یہ للچاتے یہ ہیں 


فوق رسالت شہ میں نہیں کچھ 

جملہ  خصائص ڈھاتے یہ ہیں


اسرا رویت ختم نبوت 

سب کو عدم ستاتے یہ ہیں 


ایک تو شہ پر یہ تہمت پھر 

حکم میں حصر بڑھاتے یہ ہیں 


واقف ہیں احکام سے باقی  

سارے فضل گماتے یہ ہیں 


 کل اعجاز تمام محاسن 

سب پر لا کھنچواتے یہ ہیں 


یہ بہتان بھی شہ پر رکھا 

کتنا حق کو ستاتے یہ ہیں 


یُوْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه 

دین کو کیا کلپاتے یہ ہیں 


ایسوں کو جو اَعَدَّلَھُمْ ہے 

آج نہیں کل پاتے یہ ہیں  


معجزۂ اُمِّیت شہ سے 

پیر کا جہل ملاتے یہ ہیں


شہ کے حکم پہ چلنے میں بھی 

شرک کی ہنڈی پٹاتے یہ ہیں 


ورد کلمۂ طیب پر بھی 

شرک کا مونھ پھیلاتے یہ ہیں 


اتنا جلتے ہیں نام شہ سے 

کلمے سے کنیاتے یہ ہیں ٫ 


دم میں کروروں ہمسر شہ ہوں 

ایسی مشین دھراتے یہ ہیں 


معجزے سے بہتیرے  جادو 

اکمل و اقویٰ گاتے یہ ہیں 


ساحر قادر لیکن شہ کو 

پتھرمحض بناتے یہ ہیں 


شہ کی وجاہت شہ کی محبت 

زہر کہاں نہیں کھاتے یہ ہیں 


اصل شفاعت شہ سے ہیں کافر 

نام کو لفظ دکھاتے یہ ہیں 


اس میں بھی تخصیص ان کی نہیں کچھ

 مہمل گول گڑھاتے یہ ہیں 


بیٹی تک تک نہ کام آئیں گے 

 بے قدری یہ مناتے یہ ہیں


مغنی رب سے نہ ہوسکنے کو 

کیا معنی پہناتے یہ ہیں 


ان کے کام نہ آئیں گے بے شک 

جب تو جہنم جاتے یہ ہیں 


جگ بیتی سے کیا مطلب ہے

اپنی بیتی سناتے یہ  ہیں 


سب کے برابر عاجز ناداں 

کار جہاں میں بتاتے یہ ہیں 


جن کا چاہا خدا کا چاہا 

ان کا چاہا مٹاتے یہ ہیں 


نائب اکبر قادر کل کو 

پتھر کا ٹھہراتے یہ ہیں 


پتھر سے بھی بدتر لاشے 

محض پہ ٹھیکا کھاتے یہ ہیں 


کیا ہر بار نبی و ولی سے 

شیطان بھوت ملاتے یہ ہیں 


جو آیات بتوں میں ہیں ان کو 

مجبوبوں پے جماتے  یہ  ہیں 


ان کو نبی بت بھوت ہیں یکساں 

یہ توحید سوجھاتے یہ ہیں 


شان  جلال حبیب حق کو 

سلب حواس بناتے یہ  ہیں 


حمد کرے حق مدح نبی سے 

 قدح سے قدر بڑھاتے یہ  ہیں 


اتنی کی شان خدا بڑھتی ہے 

جتنا نبی کو گراتے یہ ہیں 


رب دیتا ہے رسل کو تسلط 

بے قابو ٹھہراتے یہ ہیں


شہ کے حضور قیام ادب کو 

شرک بھون میں بٹھاتے یہ ہیں 


طیبہ کے جنگل کے ادب پر  

کیا زنجیریں تڑاتے یہ ہیں 


خود فرمان رسول اللہ پر 

حکم شرک چڑھاتے یہ ہیں 


اِنٔ ھُوَ اِلَّا وَحْیّ یُّوْحٰی ٫ 

دیکھو کہاں چھلکاتے یہ ہیں 


ان کی بات تو وحی خدا ہے  

کس پر شرک جھکاتے یہ  ہیں 


سن کے تبرک آب مدینہ  

شرک میں ڈوبے جاتے یہ ہیں


ان کو سفر طیبہ کا سقر ہے 

اس پر ادب کیا گاتے یہ ہیں 


پھکڑ جھکڑ ورنہ مشرک 

پھر اسلام رکھاتے یہ ہیں 


شہ کا خیال نماز میں آنا 

درجوں خر سے گراتے یہ ہیں 


لعنت حق ہو لعن رسل ہو 

کیسی رینک سناتے یہ ہیں 


سورۂ فاتحہ اور تشہر  

 شرک اندھن میں دھنستے یہ ہیں 


 بیل گدھے کی یاد میں ڈوبیں 

 اس کو سہل بناتے یہ ہیں 


لیکن یاد رسول اللہ پر 

شرک کی نیو چناتے یہ ہیں 


 خر سے تو اُن کو خیر ہی پہنچی

 خار تو شہ سے کھاتے یہ ہیں 


ختم جنہوں نے نبوت کر دی 

جس پر دل ہمکاتے یہ ہیں 


 یاد محمد یاد خدا ہے 

کس کو خر سے گھٹاتے یہ ہیں 


ان کو گدھے کا ذکر ہی روزی 

جس کی شان بڑھاتے یہ ہیں 


ہم کو ذکرحبیب جسے یوں 

 آگ سمجھ کے بجھاتے یہ ہیں 


غیر نبی کو وحی عصمت  

مان کے نیو جماتے یہ ہیں


کا ہے کی نیو نبی بننے کی 

جس پر جان گنواتے یہ ہیں 


سلب قرآں جائز کہہ کر 

اس کو حدیث میں لاتے یہ ہیں 


قرآں وجہ ہدایت کب ہے 

محض الزام ہے گاتے یہ ہیں 


منصب  فهم نکات قرآں 

ہر گیری کو دلاتے یہ ہیں 


 پھر اس كزب جلی کی تہمت 

خود قرآں پر اٹھاتے یہ ہیں 


خود کہے قرآں مَایَعْقِلُھَا 

امی فہم بتاتے یہ ہیں 


بے سمجھائے نہ سمجھے صحابہ 

اپنی ٹانگ اڑاتے یہ ہیں 


حق کے بیاں کی نبی کی حاجت 

 پیٹ سے خوانرے آتے یہ ہیں 


 قرآں ہر شے کا ہے بتیاں 

صفر نبی کو بناتے یہ ہیں 


معطی نے یُعَلِّمُھُمْ فرمایا 

خود فہمید مناتے یہ ہیں 


فی الامین یاد ہے ان کو 

وہ تعلیم بھلاتے یہ ہیں 


بغض کتاب پہ نام کو ایماں 

بغض سے کفر دکھاتے یہ ہیں 


قاصد سے اب کیا کام ان کو 

سلجھی پاتی پاتے یہ ہیں 


خوانرے ہیں کیوں امی سے سیکھیں 

 صاف ہے خط پڑھے جاتے یہ ہیں 


یہ ہے حدیث کی درگت جس کے 

دعوے پر اتراتے یہ ہیں 


جب تو مقلد مجہتریں کو 

نصرانیت اُڑ ھاتے یہ ہیں 


مجہتد العصر ان کا ہے جس کو 

بن سے پکڑ کر لاتے یہ ہیں 


ترمجی مسکاۃ اور بکھاری ٫ 

گھول کر اس کو پلاتے یہ ہیں 


ساپھی ہنپھی کے سکے کھوٹے 

جھنجھی اپنی بھناتے یہ ہیں 


 سارے سرک بدت  پیے بیٹھے  

اب کیا دیدہ لچاتے یہ ہیں 


الحاصل قرآن کو ہر دم 

جھٹلاتے مکراتے یہ ہیں 


روئے زمیں پر کافر ہیں سب 

ایسی باؤ جلاتے یہ ہیں 


شہ کی امت کافر مانی 

آپ کہاں بچے جاتے یہ ہیں 


روئے زمیں سے الگ کیا کوئی 

گوہ کا بھٹا بساتے یہ ہیں 


اپنی آگ میں جل گئے آپ ہی 

اچھی دیپک گاتے یہ ہیں


شرک کی ایسی تند چڑھی ہے 

شرک ہی شرک بلاتے یہ ہیں 


شرک کی تسبیح ان کا وظیفہ 

شرک ہی جپتے جپاتے یہ ہیں 


ساون کے اندھے کا ہرا ہے 

شرک جو گاتے گواتے یہ ہیں 


شرک ہے ان کی بڑھی دولت 

چھروں شرک لٹاتے یہ ہیں 


شاہ ملک جبریل قرآں 

سب پر شرک گھماتے یہ ہیں 


تور لت انجیل زبور اب 

ان سے شرک جٹاتے یہ ہیں 


غیب پہ کشتی خضر و موسٰے 

شرک بھنور میں پھنساتے  یہ ہیں 


سجدۂ یعقوب یوسف کو 

چاہ شرک جھنکاتے یہ ہیں 


اُبْرِیُٔ الْاَکْمَهَ وَاْلَا بَرص پر 

سولی سے دھمکاتے یہ ہیں


اُحْیِ الْمَوْتٰی سن کے تو مرکر

شرک گڑھے میں سماتے یہ ہیں 


نام پسر پر آدم و حوا 

دونوں کا دین کھپاتے یہ ہیں 


ایک بڑے کے بھی دادا نانا  

شرک کے نیچے لٹاتے یہ ہیں 


دادی نانی دونوں مسلماں 

کفر اُنہیں کب  چپکاتے یہ ہیں 


اب جو حکم اولاد پر آیا 

پوچھو کیا فرماتے یہ ہیں 


اور اگر ان کو بھی شرک میں سانیں 

جب کیا چاک سلاتے یہ ہیں 


مرتد و مرتدہ کا تناکح  

رد ہے کدھر چکراتے یہ ہیں 


لاکھوں مسلماں کر دیے مشرک 

 گھر کی خبر بسراتے یہ ہیں 


جیسی کرنی ویسی بھرنی

کاٹیں جیسی بواتے یہ ہیں 


عبدعزیز ولی اللّٰہ کو

شرک کی دلی دکھاتے یہ ہیں 


شیخ مجدّد صاحب پر تو 

سب سے سوا غزاتے یہ ہیں 


آپ پہ ڈھالیں باپ پہ ڈھالیں 

کون ہے جس کو بچاتے یہ ہیں 


حاجی امداد اللہ کو بھی 

شرک مدد پہنچاتے یہ ہیں 


تھانوی قاسم گنگوہی کو 

شرک کے تھان بندھاتے یہ ہیں 


 قَدْیَصْدُق خود اور یہ تینوں 

چار پہ سچ ڈھلکاتے یہ ہیں 


شرک فقہی کُفر کلامی 

باہم بانٹے کھاتے یہ ہیں 


چاہے تو حق عالم ہو براب تک 

جاہل ہے یہ گاتے یہ ہیں 


اس کی صفات قدیمہ کو حادث 

اور مخلوق لکھاتے یہ ہیں


سارا علم غیب اِلٰہی 

پانچ میں ختم کراتے یہ ہیں 


سمت زبان  مکاں سے تنزیہ 

حق کی ضلال بتاتے یہ ہیں 


دیدار بے کیف پر اماں 

كفروں کے ساتھ گناتے یہ ہیں 


ترک سزائے شرک پر اس کو 

ہے غیرت ٹھہراتے یہ ہیں 


غیر کُفر کی قطعی سزا بھی 

معتزلہ سی بناتے یہ ہیں 


قدر حکم نبی رکھنے کو 

حیلہ گر اس کو بناتے یہ ہیں 


مورچھل اس کی قبر پہ جھلتے 

نمکیرہ تنواتے یہ ہیں ٫ خاص 


انہیں اپنے لیے کرنے کی 

تہمت حق پر اٹھاتے یہ ہیں


جو اک پیڑ کے پتے گن دے 

اس کو خدائی تھماتے یہ ہیں 


حق سے ہاتھ میں ہاتھ ملا کر 

پیر کو باتیں کراتے یہ ہیں 


یوں گھل مل کے کلام حقیقی 

یارانہ گنٹھواتے یہ ہیں  


لیکن شاہ و رسل کے حق میں 

قاہر محض بتاتے یہ  ہیں



جو اک پیڑ کے پتے گن دے ٫ 

اس کو خدائی تھماتے یہ ہیں 


حق سے ہاتھ میں ہاتھ ملا کر 

پیر کو باتیں کراتے یہ ہیں 


یوں گھل مل کے کلام حقیقی 

یارانہ گنٹھواتے یہ ہیں  


جو اک پیڑ کے پتے گن دے 

اس کو خدائی تھماتے یہ ہیں 


حق سے ہاتھ میں ہاتھ ملا کر 

پیر کو باتیں کراتے یہ ہیں 


یوں گھل مل کے کلام حقیقی 

یارانہ گنٹھواتے یہ ہیں  


لیکن شاہ و رسل کے حق میں 

قاہر محض بتاتے یہ ہیں 


کذب اِلٰہی ممکن کہہ کر 

 دین ویقیں سب ڈھاتے یہ ہیں 


 کذب کا کیا غم ہاں کوئی کا ذب ٫

سمجھے اس سے ڈراتے یہ ہیں 


اُن کو بھلا بہلا کے ہو چھوٹا 

اس کا پاس دلاتے یہ ہیں 


قدرت رب سے ہی کذب بشر ہے 

طاقت جس کی رکھاتے یہ ہیں 


کذب خدا پر کون ہے قادر 

قدرت جس سے گھٹاتے یہ ہیں 


اوندھی ٫ عقل کی اندھی بدھیا 

کس جنگل میں چراتے یہ ہیں


بالفعل ان کا خدا عیبی ہے 

پھر امکان تو گاتے یہ ہیں 


سوئے اونگھے تھکن محتاجی 

کونسا نقص براتے یہ ہیں 


کام کو اس پر مشکل مانیں 

خلق سے اس کو ہراتے یہ ہیں 


کھائے بھی پھر کیوں نہیں اس کو 

موہن بھوگ چڑھاتے یہ ہیں 


اف ان کے امکان کی خواری 

بھیک تک اس کو منگاتے یہ ہیں


جوڑ اور جورد ماں باپ سکے 

بچے اس کو جناتے یہ ہیں 


اس کا شریک اور خواری میں یاور  

سب کی کھیپ بھراتے یہ ہیں 


ذلت و عجز خوف کا کیا غم 

موت تک اس کو چکھاتے یہ ہیں 


جتنے عیب بشر کر سکتا 

اپنے خدا کو لگاتے یہ ہیں       

                        

اچھلے کو دے کلائیں کھاۓ 

 سب کھیل اس کو کھلاتے یہ ہیں  


 دبکے پھولے سمٹے پھیلے    

اس کو ربڑ کا بناتے  یہ ہیں  


 مرد بھی عورت بھی خنشی‌بھی                                       کیا کیا سوانگ رچاتے یہ ہیں         


 اپنے خدا کو محفل محفل                 

کوڑی ناچ نچاتے یہ ہیں 


چاروں سمت اک آن میں مونھ ہو 

ناچ اس کا یہ دکھاتے یہ ہے 


چو مکھے برھما اور کانھا کے 

آگے سیس نواتے یہ ہیں 


دیوکے آگے گھنٹی بجا کر

بم اس سے بلواتے یہ ہیں 


لنگ  جاہری کی‌ ڈنڑوتیں 

پوجا پاٹ کراتے یہ ہیں 


کتکی اشنان اور بیساکھی

ڈبکی اس کو کھاتے یہ ہیں 


زانی مزنی اوچکا ڈاکو 

سارے جھولے جھلاتے یہ ہیں


کونسی خواری باقی چھوڑی 

سب اس سے کرواتے یہ ہیں 



بیٹے گائے یہود و نصاریٰ 

جورو اور ملاتے یہ ہیں 


عقل فرنگ سے باغ خرد میں 

تین خدا لہکاتے یہ ہیں 


چور شرابی ظالم جاہل 

رب پہ روا گنواتے یہ ہیں 


کھکل عیبی پوچ خدا کو 

پوچتے اور پجواتے یہ ہیں 


ملک خدا سے باہر چیزیں 

اوروں کی ملک گناتے یہ ہیں 


 لاکھوں کروروں خدا کے پجاری

پھر توحید مناتے یہ ہیں 


سب خبریں قرآن کی جھوٹی 

 پڑنی روا ٹھہراتے یہ ہیں 


اب تو الوہیت بھی سدھاری 

 دھول سے کھال گنواتے یہ ہیں 


اس کے علم خبر تخالف  

کہہ کے خدائی ڈھاتے یہ ہیں 


بلکہ کمال اُسے ٹھہراکر 

گنگا الٹی بہاتے یہ ہیں 


جب ہے کمال خلاف قرآں 

اب کیا پلّہ بجاتے ہیں 


یا تو خدا ہے کمال سے خالی 

یا قرآن جھٹلاتے یہ ہیں 


رب کا غضب ہو وحی سے پہلے 

کس کو ضال بتاتے یہ ہیں 


بلکہ کہا ایمان سے خالی 

 لعنت ہو کیا گاتے یہ ہیں 


مرسل لاثانی کا ثانی 

گنگو ہی کو بناتے یہ ہیں 


قبر ہے طور وہ رب یہ موسٰی 

کیسے جنون پکاتے یہ ہیں 


اس کے کالے غلاموں کو یوسف 

پاجی پن دکھاتے یہ ہیں 


عبد نبی شرک اندھے کے بندے 

بن کے بہت اٹھلاتے یہ ہیں 


 اس کو محیی و مبقی کہہ کر 

عیسٰی کو چونکاتے یہ ہیں


علم اپنے مرشد شیطاں کا 

علم شہ سے بڑھاتے یہ ہیں 


اس کی وسعت نص سے مانیں 

شہ کو کہو جل جاتے یہ ہیں


ایسے فضل پر اس کو جماتے 

مولیٰ تُجھ کو  ہٹاتے یہ ہیں 


صاف صریحاً  اپنے خدا کا 

اس کو شریک بناتے یہ ہیں 


شرکت کیسی خود شیطاں کو 

اپنا خدا ٹھہراتے یہ ہیں 


جو اللہ کو جھوٹا مانے 

صالح اس کو گناتے  یہ ہیں 


کافر گمرہ فاسق کیسا 

کرا لفظ بچاتے یہ ہیں


 شافعی و حنفی کے مانند 

اس کا خلاف مناتے یہ ہیں 


بندوں کو قدرت  دیدی حق کو 

اب بے دخل بتاتے یہ ہیں  


مجھ کو بھائی کہو کی تہمت 

مولیٰ تُجھ پر اٹھاتے یہ ہیں


اپنے ہی مونھ ملعون ہوئے خود 

 نار میں دار چھواتے یہ ہیں 


لعن ابلیس پر اوروں کے مونھ سے 

 اپنے ہی مونھ کی پاتے یہ ہیں 


 مونھ کی پائی مونھ کی کھائی 

بچ کے کہاں اب جاتے یہ ہیں 


 باپ کو اپنا قریب بنایا

گستاخی ٹھہراتے یہ ہیں 


شاہ رسل کو بھائی کہنا 

ماں کا دودھ  بناتے یہ ہیں 


مٹی میں ملنا مٹی سے ملنا 

 ایک ہے یوں چند راتے یہ ہیں 


 پیٹھ رسول اللہ کو دے کر 

 کیسی اوندھی گاتے یہ ہیں 


 استمراد کریں شیطاں سے 

شرک نبی سے بتاتے یہ ہیں 


مجلس مولد ہے خرافات 

ایسی خرافات لاتے یہ ہیں


سوانگ کنھیا جنم کا ہے یہ 

پنڈت جی جھنکاتے یہ ہیں 


فاتحہ میں قرآں کی تلاوت 

دید پڑھنت سناتے یہ ہیں 


قرآں دید ہے قاری پنڈت 

یہ تشبیہ جماتے یہ ہیں 


فکر بقرر ہمت ہے کیا 

ہندو دھرم دھراتے یہ ہیں 


 ہندو دھرم سے بدتر ردت 

جدت  جس میں دکھاتے یہ ہیں


 شرک و کُفر اوروں کے لیے شر 

خیر اپنوں کی مناتے یہ ہیں 


اپنوں کا زہر ہلاہل سب کو 

سید بتا کے چٹاتے یہ ہیں 


شہ کا رحمت عالم ہونا 

 ہر ملّے کو دلاتے ہیں 


 یعنی یہ بھی رحمت عالم 

ملے خود کہلاتے یہ ہیں 


فضل شہ میں بخاری و مسلم 

سب مردود بتاتے یہ ہیں 


نقص کو ایک بے اصل روایت 

اپنی برہان لاتے یہ ہیں 


راد کو اس گا  راوی گائیں 

 کیا بے پر کی اڑاتے یہ ہیں 


فضل شہ کی عداوت دیکھی 

کیا کیا ہاتھ چباتے یہ ہیں


 یَوْمْ یَعَضُّ الظَّالِم کا رنگ

 دنیا ہی سے دکھاتے یہ ہیں 


 انجان ان پڑھ کے چھلنے کو 

 کیا کیا جال بچھاتے یہ ہیں 


 تفویت الایمان کا پڑھنا 

عین اسلام بناتے یہ ہیں 


 یوں قرآن سے اس کو بڑھا کر 

 جب تک کُفر منجھاتے یہ ہیں 


عبد عزیز تک ایماں کب تھا 

اسلام آج پھلاتے یہ ہیں 


 نیت اجر  کا اہل ہے کافر 

کفر کو کیا چمکاتے یہ ہیں 


ہندو کو کیا اہل سمجھتے 

اپنی دال گلاتے یہ ہیں


یہ ہیں مفید نبی کو جو سمجھے 

اس پر شرک اونر ھاتے یہ ہیں 


 رب کی دوہائی لغو سمجھ کر 

جبراً شرک مناتے یہ ہیں 


وقت پڑے پر جائز کہہ کر 

جادو کرتے کراتے یہ ہیں 


شرک مباح ہے بلکہ ہے سُنّت 

فعل رسول بناتے یہ ہیں 


بے رب کے دیے علم جو مانے 

کُفر سے اس کو بچاتے یہ ہیں 


نار سقر میں روشنی  سوجھی 

 کیا اندھیر مچاتے یہ ہیں


دمیبن والوں کے ملنے سے 

اردو شہ کو سکھاتے یہ ہیں 


 ان کے نبی کی استاذی کا 

حق امت پہ جتاتے یہ ہیں 


 اف بیبا کی شاہ سے اپنی 

 روٹی تک  پکواتے یہ ہیں 


 ان کی رسائی کی یہ رسائی 

حق رساائ پاتے یہ ہیں 


ہولی دوالی  کا کھانا جائز 

 جے جے کر کے کھاتے یہ ہیں 


شربت و آب سبیل محرم 

صاف حرام کراتے یہ ہیں 


نام امام نے آگ لگا دی  

نجد کی ہولی جلاتے یہ ہیں 



شہ کے پچھلے نبی ہونے کو 

فضل سے خالی گاتے یہ ہیں 


جیسے ایسے ویسوں کے اوصاف 

 اتنا اس کو گراتے یہ ہیں 


حق پہ فضول اور بے ربطی کی 

لم قرآں پہ لگاتے یہ ہیں 


 مدح جو اس کو سمجھے صحابہ 

نا فہم ان کو بتاتے یہ ہیں


اب سے ان تک امت بھر پر 

جاہل کا مونھ آتے یہ ہیں 


 ایک صحابہ کیا کہ نبی پر 

طعن یہی برساتے یہ ہیں 


منکر ختم کو پھر کافر بھی 

دھو کے کو لکھ جاتے یہ ہیں 


 در کُفر و دیں ماندہ مذ مذہب 

 نے ایماں نہ ثباتے یہ ہیں 


دھوکا کھل گیا چند ورق پر 

پھر وہی پلٹا کھاتے یہ ہیں 


شہ کے بعد نبوت تازہ 

پاک خلل سے بتاتے یہ ہیں 


آپ ہی کافر آپ ہی مکفر 

اپنی آپ ہی ڈھاتے یہ ہیں 


جب تو برائے نام خود اپنا 

اسلام آپ سناتے یہ ہیں 



اوّل کافر آخر کافر 

 گر پھر کُفر پہ چھاتے یہ ہیں


 دھوکا دینے دبا پھر اچھلا 

کُفر کو کتنا بھاتے یہ ہیں  


ان کے کُفر کا اٹھتا جوبن 

ناحق اس کو چھپاتے یہ ہیں 


 سرکش اتنا اتنا ابھرے 

 جتنا جتنا دباتے یہ ہیں 


اور خداؤں کا وہ خدا ہو 

رتبہ اس میں بڑھاتے یہ ہیں 


 مشرک کو اثبات بتاں کی

 یہ برہان پڑھاتے یہ ہیں  


خلق سے اس کا تناسب گا کر  

اربعہ میں اسے لاتے یہ ہیں 


ہم کو غلام سے جو ہے وہ نسبت 

حق کو ہم سے بتاتے یہ ہیں  


 یہ ذات طرفین و  وسط ہے 

یوں  تثلیث مناتے یہ ہیں 


 اور رسل کی عرضی نبوت 

 ایک دن ان سے چھناتے یہ ہیں 


شہ سا ہر کس و ناکس جانے 

غیب یہ  عیب دکھاتے یہ ہیں 


علم حضور میں بچے پگلے 

کل جو پائے پھڑاتے یہ ہیں 


ان میں نبی میں فرق بتاؤ 

کس لعنت کی گاتے یہ ہیں 


اِنْ ھُمْ اِلَّا کَالْانْعَامِ 

بَلْ ھُمْ اَضَلّ کے بھراتے یہ ہیں 


تھک کر اس بد  گالی کو اک 

علمی بحث بناتے یہ ہیں 


عیب کی لائے ریب کی گائے  

غیب سے ویب کماتے یہ ہیں 


اس کو کافر لکھ گئے جس کو 

بھینٹ ایمان چڑھاتے یہ ہیں 


لیکن جب تک نام نہ  جانا 

جان کے جان چراتے یہ ہیں 


 وہ بجہنم خود کُفر اپنا 

مانتے اور چھپاتے یہ ہیں 


قول ہے کفر اور قائل کافر 

لیکن نام بچاتے یہ ہیں 


قائل ڈھنڈے جی سے کافر 

 نام لیے گرماتے یہ ہیں 


وار جو ختم نبوت پر تھے 

اب وہ بیج اُگاتے ہیں 


 یعنی اپنے نبی جپنے کو 

تسکیں بخش بناتے یہ ہیں 


اپنے نام پہ استقلالا 

صل علٰی بھنواتے یہ ہیں 


بہکی زباں اور دن بھر بہکی 

اف اف کیا بہکاتے یہ ہیں 


ان کی ثنا تھی نبی کی ذم تھی  

 یوں یہ عذر مناتے یہ ہیں 


ان کو برا کہنا تو یہ حیلہ 

سنتے یا جل جاتے یہ ہیں 


شیخ جی مزار کے ہوئے وارث 

 شیخی جس پہ دکھاتے یہ ہیں 


بپتسما مزار سے پایا 

 بلکہ اسے شرماتے یہ ہیں 


ماں کا ادب کافر بھی کرے گا 

ان کی سنو کیا گاتے یہ ہیں 


واقعہ ڈھالیں ماں کا آنا 

زن کا ذہن لڑاتے یہ ہیں 


جن پر لاکھوں مائیں تصدیق 

تعبیر ان کی بناتے یہ ہیں 


کیوں ادب صدیقہ کریں کیا 

دین کا دینا دھراتے یہ ہیں 


 وہ تو مسلمانوں کی ماں ہیں 

 کب اسلام رکھاتے یہ ہیں 


ان کی جو روداد ہے بد ہے 

 بد روداد ہی پاتے یہ ہیں 


کوکبہ میں ستر ہی تھے جن میں 

قارون گنج بساتے یہ ہیں 


یہ تو دو سو تیس  ہیں اب کس 

تحت ثریٰ کو جاتے یہ ہیں


تیرے رضا پر تیری رضا ہو 

اس سے غضب تھراتے یہ ہیں 


بلکہ رضا کے شاگردوں کا 

نام لیے گھبراتے یہ ہیں 


حٔامِد مِنِّیْ اَن‍َامِنْ حَامِد

حمد سے ہمد کماتے یہ ہیں 


 عبد سلام سلامت جس سے 

سنحت آفات میں آتے یہ ہیں 


میرے ظفر کو اپنی ظفر دے 

اس سے شکستیں کھاتے یہ ہیں 


 میرا امجد مجد کا پکا 

اس سے بہت کچیاتے یہ ہیں 


میرے نعیم الدین کو نعمت 

اس سے بلا میں سماتے یہ ہیں 


احمد اشرف حمد و شرف لے 

اس سے ذلت پاتے یہ ہیں 


مولانا دیدار علی کو 

کب دیدار دکھاتے یہ ہیں 


مجبور احمد مختار ان کو 

کرتا ہے مر جاتے یہ ہیں 


عبد علیم کے علم کو سن کر 

جہل کی بہل بھکاتے یہ ہیں 


ایک اک وعظ عبد الا حد پر  

کتنے نتھنے پھلاتے یہ ہیں 


 بخش رحیم پہ رحمت جس سے 

آرے کے نیچے آتے یہ ہیں 


جوہر منشی لعل پہ ہیرا 

کھا مرنے کو منگاتے یہ ہیں 


آل الرحمٰن برہان الحق 

شرق پہ فرق گراتے یہ ہیں 


تازہ ضرب شفیع احمد سے 

کہنہ بخار اٹھاتے یہ ہیں 


 دے حُسنین وہ تقیخ ان کو 

جس سے برے ٫ کھسیاتے یہ ہیں 


نجدیہ میں ہلچل رہے ان کی 

جیسے ہل ان پہ چلاتے یہ ہیں 


کم کو فزوں  افزوں   کو فزوں تر 

کر دے ترا ہی کھاتے یہ ہیں 


اپنوں میں ان کے مثل فزوں کر 

تیرا ذکر بڑھاتے یہ ہیں 


دل میں ہراس نہ لانے دینا 

دل میں انی چمکاتے یہ ہیں 


ان پہ کرم رکھ سر پہ قدم رکھ 

 تیرے ہی کہلاتے یہ ہیں 


تیرے گدا ہیں تجھ پہ فدا ہیں 

تیرا ہی کھاتے گاتے یہ ہیں 


صلی اللہ علیک وسلم 

بارک شرف مجد کرم 



طالب دعا : محمد رضا قادری رضوی

`•`•`•`•`•`•`•`•`•`•`•`•`•`•`•`•`•`•`•`•`


[Blog :: Mohammed Usman Gani Qureshi]

(Social Media :- WhatsApp, Instagram)

Comments

Popular posts from this blog

Ziya e Mustafa Ban Kar Ziya Ul Mustafa Aaye

Mat Pucho Bareilly Meñ Humne