Tazmeen e Kalam E Raza :: Roz O Shab Josh Pe
تضمین کلامِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ از قلم : بلبلے باغِ مدینہ حافظ حدائقِ بخشش الحاج محمد اویس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ
روز و شب جوش پہ رحمت کا ہے دریا ترا
صدقہ اس شانِ سخاوت پہ یہ منگتا ترا
ہاتھ اٹھے بھی نہ تھے اور مل گیا صدقہ ترا
واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحٰا ترا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا ترا
وہ حقیقت تری جبریل جسے نہ جانیں
کس طرح لوگ بھلا رتبہ تمہارا جانیں
توڑ لکھ کے قلم یوں ہی جو لکھنا جانیں
فرش والے تِری شوکت کا عُلو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
نہ کوئی تم سا سخی ہے نہ کوئی مجھ سا غریب
چشمِ بیدار جگا دے مرے خوابیدہ نصیب
تم جو چاہو وہ خدا چاہے تم اتنے ہو قریب
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
چاندنی رات میں جابر کا نظارہ دیکھیں
چاند کو وہ کبھی آقا ﷺ ترا چہرہ دیکھیں
کہہ اٹھے وہ بھی تو آخر یہی جملہ دیکھیں
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
تیری خیرات کا اک ذرّہ کرے ہم کو نہال
کس طرح جائیں کسی اور کے در بہرے سوال
سلسلہ اپنی عطاوں کا یوں ہی رکھنا بحال
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ ترا
گر گناہوں کے سبب تم نے دیا در سے نکال
اس تصور سے ہی ہو جائیں تیرے بندے نڈھال
کون رکھے گا تیری طرح فقیروں کا خیال
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ ترا
وسعتیں دی ہیں تیرے دامن کو خدا نے کتنی
ہے اسی بات کی محشر میں شاہا دھوم مچنی
کیوں کروں فکر تیرے ہوتے میں اتنی اپنی
ایک میں کیا مِرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا
کعبۂ جاں کا ملے حشر میں جب مجھ کو غلاف
ساتھ ماں باپ ہوں احباب بھی ہو اور اسلاف
اس عنایت پہ یہی شور اٹھے چو اطراف
چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلاف
تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا
ازپئے خالق و رحمان و ولی کر دے کہ ہے
ازپئے فاطمہ حسنین و علی کر دے کہ ہے
تو ہے مختار پائے غوثِ جلی کر دے کہ ہے
میری تقدیر بُری ہو تو بھلی کر دے کہ ہے
محو و اِثبات کے دفتر پہ کڑوڑا تیرا
دولتِ عشق سے دل میرا بھلی کر دے کہ ہے
گم رہوں تُجھ میں میری ختم خودی کر دے کہ ہے
مجھ گناہگار پہ رحمت کی جھڑی کر دے کہ ہے
میری تقدیر بُری ہو تو بھلی کر دے کہ ہے
محو و اِثبات کے دفتر پہ کڑوڑا تیرا
ہیں جو بے زر مری سرکار انہیں زر کر دے کہ ہے
بیٹیاں جن کی کنواری ہیں انہیں پر کر دے کہ ہے
چھت نہیں جن کو میسّر انہیں اک گھر کر دے کہ ہے
میری تقدیر بُری ہو تو بھلی کر دے کہ ہے
محو و اِثبات کے دفتر پہ کڑوڑا تیرا
واہ کیا شان بڑھائی ہے خدا نے تری
اولیں آخریں سب حمد کریں گے تری
توڑیں سب جام بکف بٹنے لگے مے تیری
تیرے صدقے مجھے اِک بوند بہت ہے تری
جس دن اچھوں کو ملے جام چھلکتا ترا
مرے عیسٰی ترے بیمار پہ کیسی گزرے
بے نوا زار پہ لاچار پہ کیسی گزرے
نزع کے وقت گناہگار پہ کیسی گزرے
دور کیا جانیے بد کار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مَرے بے کس و تنہا تیرا
گر طلب ہے کہ برائے تری حاجاتِ جمیع
کر عبید اپنے رضا کی ذرا تقلیدِ بقیع
پیش کر تو بھی یہی قول بدرگاہِ وقیع
تری سرکار میں لاتا ہے رضآ اس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا ترا
In Text :: Muhammad Raza Qadri Razvi
Blog Managed By : Usman Gani Qureshi (Contact)
Comments
Post a Comment