Tameen Bar Kalam E Raza
ہاتھ میں لے کے عدالت کا وہ میزان گیا
دل سے مخلوق کے اندیشۂ نقصان گیا
دولتِ فضلِ الٰہی کا نگہبان گیا
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشئ رحمت کا قلم دان گیا
لے کے ساحل پہ سفینہ مرا، طوفان گیا
تجھ سے نسبت کو مری سارا جہاں مان گیا
بس یہ کہنا تھا مرا، وقفۂ یک آن گیا
لے خبر جلد کے غیروں کی طرف دھیان گیا
میرے آقا میرے مولیٰ ترے قربان گیا
نشہ، اس کا ہے، جو الفت میں تری، چور رہا
خوش وہی ہے، جو خوشی میں تری، مسرور رہا
ہے نظر، اس کی، جو آقا تجھے منظور رہا
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
غیرت عشق نے، بھر بھر کے پلائے تھے، وہ جام
جانبِ غیر، نظر اٹھنے کا، لیتی نہ تھی نام
ان کی آقائی سے، نکلا نہ کبھی، ان کا غلام
انھیں جانا، انھیں مانا، نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد ، میں دنیا سے مسلمان گیا
ہاں نگاہوں میں لقد من کی آیت نہ سہی
دل کو کچھ قدر شناسی کی بھی عادت نہ سہی
سارے انعاموں پہ جاگی نہیں غیرت نہ سہی
اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
وہ جو نابینا ہوئی اور نہ بینا ہی رہی
تیرے جلوؤں کے لیے آپ، جو پردہ ہی رہی
آگے کچھ بڑھ نہ سکی،جو سرِ روضہ ہی رہی
آہ ! وہ آنکھ کے ناکام تمنا ہی رہی
ہائے وہ دل جو ترے در سے پر ارمان گیا
شاہ کونین ہیں وہ عیش ابد مانگ ان سے
حشر کا چین لے، آرام لحد مانگ ان سے
تقویٰ و علم و عمل، سب کی سند، مانگ ان سے
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
کیا بیتاب جنھیں تشنہ لبی نہ پھنچے
وصل کا جام درِ یار پہ پینے پہنچے
تم کو پوچھا نہ ، امین، کسی نے پہنچے
جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا
از امین صدیقی رضوی مراداباد یوپی الہند
7505031575
Comments
Post a Comment